12-Nov-2023-تحریری مقابلہ بے بسی
بے بسی
گھر میں شادیانے بج رہے تھے ، شمی کی مہندی رات تھی گانے بجانے کا سلسلہ عروج پر تھا چھیڑ چھاڑ کے ساتھ لڑکیوں کی آوازیں بلند ہو جاتیں جو خاور کے کانوں کو بالکل بھلی نہیں لگ رہی تھی وہ بیزار اپنے کمرے میں ایک ایسی شئے کی طرح پڑا ہوا تھا جس کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی قدر وقیمت ۔۔۔ ایک ایس چیز جو بیکار اور بےدام ہو ۔۔۔۔۔ ایک ایس غلاظت جسے کوڑے دان میں ڈال کر لوگ گھر صاف کرنے کا نام دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کانوں کو تکیہ سے دبائے وہ ماضی میں کھو گیا۔۔۔۔
ارے خاور کے بنا تو ہر کام ادھورا ہے وہی بڑی سمجھداری سے ہر کام کو انجام دیتا ہے مامی جان نے خاور کو پیار سے دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
ہاں ہاں امی سو فیصد سچ ہے یہ خاور ہی ہے جس نے ہر چھوٹے بڑے تقریبات کے انتظامات کی ذمےداری کو بحسن وخوبی نبھایا ہے رمشہ نے بھی تعریفوں کے پل باندھ دیئے ۔
رمشہ آپی تعریفیں کرکے اسے سر نہ چڑھائیں ۔۔۔ شمی نے شرارتی انداز میں کہا ۔۔
خاور نے مسکراتے ہوئے ۔۔۔۔ رمشہ آپی ۔۔ کہیں سے جلنے کی بوآ رہی ہے میری تعریفیں کسی کو ہضم نہیں ہوتی ۔
اس طرح کی نوک جھونک سےگھر کی رونقیں قائم تھیں ۔دونوں گھروں میں ایک دیوار کا فاصلہ تھا بڑوں نے شمی اور خاور کے رشتے کو زبانی طے کر لیا تھا اور یہ دونوں واقف تھے ۔ خاندان والوں کو نہیں بتایا گیا تھا ۔ رشتےداروں میں جن کے گھروں میں لڑکیاں تھیں سب ہی خاور کو پسند کرتے وہ تینوں بچوں میں اپنے والدین کا دلارا تھا گھر میں اس کی اہمیت اس کی فرمانبرداری اور حسن وسلوک کے علاوہ پرکشش شخصیت بھی تھی ۔
زندگی اپنے خوبصورت انداز میں گزر رہی تھی کسی کو پل کی خبر نہیں کیا ہونے والا ہے ۔۔
خاور اپنےوالد کے ساتھ بزنس کے سلسلے میں جس فلائٹ میں سفر کر رہا تھا وہ حادثہ کا شکار ہو گئی والد صاحب کا ساتھ ہمشہ کے لئے چھوٹ گیا خاور کی جان تو بچ گئی لیکن اس کا بایاں ہاتھ کہنی سے کاٹ دیا گیا تھا ۔
اب وہ جاذب نظر نہیں رہا شمی سے منسوب کی بات آئی گئی ہوگئی ۔ خود شمی نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی ۔ رمشہ آپی کبھی کبھار آتی سمجھاتی ، دلجوئی کی کوشش کرتی ۔مامی آتیں تو ماضی کے قصے چھیڑ کر رونا روتی اور زخم ہرا کر کے چلی جاتیں۔ جسمانی زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن جو روح زخمی ہو تو کیا کریں ۔ ڈاکٹر نے امید دلائی کہ زخم جلد ٹھیک ہو جائے گا پھر ہم لوگ مصنوعی ہاتھ لگانے کی پروسس کریں گے ۔
مامی کو خدشہ تھا اور شمی کو خوف کہ کہیں اس ادھورے شخص کے لئے رشتے کی بات نہ کہہ دی جاۓ۔۔۔۔۔ آ نا فانا خالہ زاد سے رشتہ طے کردیا گیا ۔
خاور کے زخم اچھے ہونے کا بھی انتظارِ نہیں کیا ۔ ماموں کے اصرار پر والدہ صاحبہ کی عدت کے بعد شادی کی تاریخ رکھی گئی۔ ا می نے بھی کوئی گلہ نہیں کیا ۔اور نہ ہی وہ زبانی وعدہ یاد دلایا ۔۔دل پر پتھر لئے ان کی خوشی میں حاضری کے طور پر شامل ہو گئی بھائی بھی تھوڑی دیر کہہ کر گیا ۔ بہن شازیہ نے سسرال کے رشتے دار کے فنکشن کا کہہ کر ٹال دیا ۔
یہ کیسے اپنے ہیں ؟ جو رشتوں کی اہمیت ان کی محبت سے غافل ہیں سچ ہے لوگ سکھ کے ساتھی ہوتےہیں جب اچھے حالات ہوں تو آپ کے اردگرد ایسی بھیڑ ہوتی ہے جو آپ سے فائدہ اٹھانے میں لگی رہتی ہے اتنی محبت اتنی اپنائیت سے آپ کے جذبات کو ہتھیار بنا کر آپ کے ہی قتل کا سامان تیار کرتے رہتے ہیں ۔۔۔
یقینا زندگی ایک طرز پہ نہیں گزرتی سکھ کا دوسرا پہلو دکھ ہے جو ہر انسان کی زندگی میں کم و بیش آتا ہے اور یہی وہ وقت ہے جسے لوگ اپنی زندگی میں آنے سے گھبراتے ہیں دکھ کے ساۓ سے بھی کترا تے ہیں لیکن جو انسان دکھ کی راہ سے گزر چکا ہے اسے اس کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے۔ وہ بہتر طور پر اس کے فائدے بیان کر سکتا ہے ۔ اللہ رحمان و رحیم ہے پھر کیوں وہ اپنے بندوں کی زندگی کو دکھوں سے دوچار کرتا ہے دراصل یہ اس کی حکمت ہے ۔۔۔۔۔ بندوں پر کچھ راز افشاء کر دیتاہے ۔
یہ ایسا دور ہے جو اپنے آس پاس کے ساتھیوں ۔دوستوں۔ رشتہ داروں اور ہمنواؤں کے چہرے سے نقاب اٹھا دیتا ہے اور ان کا اصلی چہرہ ، سلوک و برتاؤ اور رویہ سامنے آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی میں کھویا ہوا خاور نجانے کب نیند کی آغوش میں آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ امی کی ہلکی آواز اور سر پر ہاتھ پھیرنے سے آنکھ کھل گئی ۔ آپ آ گئیں ؟
ہاں بیٹا ! تم تو گہری نیند میں تھے اس لئے نہیں جگایا اب فریش ہو کر کچھ کھاؤ اور دوا لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرایا ماں نے بھی اپنے درد کو مسکراہٹ میں چھپا کر بیٹے کی پیشانی کو بوسہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔!
اے بے بسی۔ ! اب تو ہی بتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہی ہے راز زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو ،سمجھو ، سیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور
گلہ نہ کرو !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اسی کو کہتے ہیں
دنیاداری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
🖌️...🍁سیدہ سعدیہ فتح🍁
Gunjan Kamal
03-Dec-2023 09:55 PM
👏👌
Reply